Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

معالج باپ کی المناک داستان

ماہنامہ عبقری - اکتوبر 2008ء

(آپ بھی اپنے مشاہدات لکھیں، صدقہ جاریہ ہے ، بے ربط ہی کیوں نہ ہوں، تحریر ہم سنوار لیں گے) (آصف محمو د خان ، احمد پور شر قیہ ) انسان جب تک خود تکلیف سے دوچار نہیں ہوتا اس وقت تک اسے دوسرے تکلیف زدہ انسانوں کی بے چارگی کا احساس نہیں ہوتا۔ تکلیفیں کئی قسم کی ہوتی ہیں لیکن شدت کے اعتبار سے زیادہ سخت تکلیف بیماری میں سرفہرست ‘ خاص طور پر دل کی بیماری یعنی امراض قلب ہے۔ کچھ عرصہ قبل کینیڈّا کے ایک ڈاکٹر ڈان کا بیٹا دل کے ایک مرض کا شکار ہو گیا۔ اس کے قلب میں ایک خاص قسم کا انفیکشن ہو گیا تھا۔ اس لڑکے کا نام ڈیوڈ منرو تھا۔ اس کی عمر 32سال تھی۔ انفیکشن کی وجہ سے ڈیوڈ منرو کو دل کے والو کا آپریشن کرانا تھا۔جس کے نتیجے میں اس کے انفیکشن زدہ والو کی جگہ اس کے دل میں دوسرے والو لگا دیئے جاتے اور وہ دوبارہ عام افراد کی طرح صحت مند ہو کر کاروبارِ حیات میں مصروف ہو جاتا۔ڈیوڈ منرو کو اپنے قلب کے آپریشن کیلئے تقریباً ایک سال کے طویل عرصے تک انتظار کرنا پڑا۔ دراصل ہسپتال کا کوئی بستر خالی نہ تھا۔ جو آپریشن ایک سال قبل ہونا تھا اس کی تاریخیں التوا کا شکار ہوتی رہیں اور بالآخر جب ہسپتال کا ایک بستر خالی ہوا تو اس وقت تک اس کے دل کو اتنا نقصان پہنچ چکا تھا کہ وہ آپریشن سے قبل ہی موت کا شکار ہو گیا۔ ڈیوڈ منرو کے باپ ڈاکٹر ڈان منرو کے ضبط کے تمام بندھن ٹوٹ گئے۔ ”یہ کس قسم کا ملک ہے؟ یہ لوگ مریضوں کی دیکھ بھال کیوں نہیں کرتے؟ میں 35سال سے مریضوں کی خدمت کر رہا ہوں لیکن میں نے آج تک ایسا سنگدلانہ رویہ نہیں دیکھا۔ میرا بیٹا بڑا پرجوش تھا‘ اس کا مستقبل بہت روشن تھا۔ لیکن میرا جوان بیٹا یہاں کی صحیح نگہداشت کے انتظام کا شکار ہو گیا۔ ”ڈاکٹر ڈان منرو نے اپنے بیٹے کی موت کے بعد یہ باتیں بڑی مایوسی اور دل شکستگی کے عالم میں کیں۔ ڈاکٹر ڈان منرو کی باتوں میں بعض ایسے اشارے بھی ملتے ہیں کہ گویا اس نے کینیڈا کی وزارت صحت کو بھی ہدف ملامت قرار دیا ہے۔ اس کی باتوں سے ظاہر ہوتا تھا کہ اس کے خیال میں وزارت صحت کی بے پروائی بھی اس کے بیٹے کی موت کے اسباب میں شامل ہے۔ ڈاکٹر ڈان منرو کے بیٹے ڈیوڈ منرو کا آپریشن اس لیے التوا کا شکارہوتا رہا کہ ہسپتال میں کوئی بستر خالی نہ تھا اور بستر خالی نہ ہونے کی وجہ دراصل یہ تھی کہ اس کے پاس مزید بستر اور متعلقہ ضروریات فراہم کرنے کیلئے مالی وسائل موجود نہ تھے۔ وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ اب ایک ایسے مرکزی رجسٹریشن کا انتظام کیا جائے گا جس کے تحت ان مریضوں کو فوقیت دی جائے گی جنہیں فوری طور پر آپریشن کی ضرورت ہے۔ اس طرح ملک فوری طور پر قیمتی جانوں کے نقصان سے ملک محفوظ رہے گا۔ معالجاتی زندگی کا ایک عجیب واقعہ (ڈاکٹر نجمی/ کراچی) آج اس نفسیاتی واقعہ کو گزرے ہوئے تیرہ سال ہو چکے ہیں لیکن میرے دماغ میں اس قدر تازہ ہے جیسے کل ہی کی بات ہو ۔وہ مریضہ جو موت اور زندگی کے درمیان جھول رہی تھی‘ اب نہ صرف زندہ اور تندرست ہے بلکہ صاحب اولاد بھی ہے۔ مسعود کے والد میرے مخلص اور گہرے دوستوں میں تھے اور اسی دوستی کیبنا پر مسعود کے خاندان والے مجھ کو خاندانی معالج کی حیثیت سے بھی جانتے تھے۔مسعود کی شادی زریں سے ہوئی۔ چھ ماہ ہی ہوئے تھے کہ ایک ناخوشگوار واقعہ کی بنا پر وہ اپنے گھر والوں سے ناراض ہو کر فوج میں داخل ہو گیا اور ایک ماہ کے عرصے میں لام پر بھیج دیا گیا۔ اگرچہ باپ نے بہت روکا‘ لیکن مسعود کی ضدی اور حساس طبیعت نے باپ کی بات ماننے سے انکارکر دیا۔ مسعود کو جس قدر زریں سے محبت تھی اس سے زیادہ ہی زریں کو مسعود سے الفت تھی‘ کیوں کہ بچپن سے دونوں ساتھ پڑھے‘ پلے‘ کھیلے اور ساتھ ساتھ جوانی میں قدم رکھا۔ مسعودکے خطوط آتے رہے لیکن تین چار ماہ بعد یہ سلسلہ یکایک کٹ گیا ۔زریں اس صدمہ میں گھلتی رہی۔ آخر کار جب مسعود کی زندگی کی امیدیں ختم ہو گئیں تو زریں کی قوتِ مدافعت‘ جو پہلے ہی کمزور ہو چکی تھی ‘ اب بالکل جواب دے گئی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے دق کے آخری درجے پر پہنچ گئی۔ اس کی زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی۔ لیکن جس کواللہ رکھے اس کو کون چکھے! لڑائی ختم ہو چکی تھی اور زریں اپنی زندگی کے آخری دن گن رہی تھی کہ مسعود کا تارآ پہنچا کہ وہ بہت جلد واپس آنے والا ہے۔ اس خبر نے زریں پر مسیحائی کا کام کیا۔ اس کی ڈوبتی ہوئی نبضیں تیز ہو گئیں‘ جسم میں توانائی آنے لگی ایک مہینے میں کافی حالت سدھر گئی۔ پھیپھڑوں کے زخم مندمل ہونے لگے۔ تیسرے مہینے تک آدھے زخم بھر چکے تھے۔ مسعود کی آمد نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ چھٹے مہینے میں ایکسرے بالکل صاف تھا۔زریں کی صحت یابی ایک معجزے سے کم نہ تھی۔ اب بھی کبھی کبھی یہ سوچتا ہوں کہ یہ محبت کی معجزنمائی تھی یا قدرت کا ایک ادنیٰ کرشمہ۔
Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 543 reviews.